Pakistan

0

Ujra Diyar


by Shahid Ahmed Dehlvi


Publisher: Maktaba-e-Danyal


360 .00 RS


Shahid Ahmed Dehlvi

About Book

شاہد احمد کے عہد سے بہت پہلے میرؔ نے دلّی کو ’اُجڑا دیار‘ کہہ کر گویا ہمیشہ کے واسطے مہر لگا دی تھی کہ یہ بستی اہلِ دہلی کے حق میں اُجڑی اور اجڑتی ہی رہے گی۔ 1947ء میں دلّی وہاں کے اصل باشندوں کی نظر میں درحقیقت اُجڑ گئی تو شاہد صاحب کے لیے اس کا احساس سوہانِ روح بن گیا اور انھوں نے ان ہستیوں کا تذکرہ لکھنا شروع کر دیا، جن کے دم قدم سے 1947ء تک دلّی صحیح معنوں میں دلّی تھی۔ اور جنہیں نظر انداز کرنے کے بعد نگاہ بازگشت ڈالنے سے وہاں کوئی رونق دکھائی نہیں دیتی۔ وہ خود لُٹ لٹا کر اُس شہرِ خوباں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور اُس کو اُجڑی حالت میں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ اُن کے سینے پر زخم پڑ گئے تھے۔ اُنھوں نے ان زخموں کو کُرید کُرید کر جو لکھا، وہ اپنے پورے تاثرات کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ آخر میں اُنھوں نے دلّی کے غُسل خونیں کی داستان بیان کی ہے۔ اس میں کچھ آپ بیتی کا رنگ ہے اور کچھ جگ بیتی کا۔ وہ اپنے غموں کے ساتھ دوسرے کے دکھ درد کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ (ملّا واحدی)

About Author

شاہد احمد دہلوی 22مئی 1906ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق اردو کے ایک اہم ادبی خانوادے سے تھا وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور بشیر الدین کے فرزند تھے۔ جنوری 1930ء میں انہوں نے دہلی سے اردو کا ایک باوقار جریدہ ساقی جاری کیا۔ 1936ء میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اس کی دہلی شاخ کے سیکریٹری بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں اقامت اختیار کی یہاں انہوں نے ساقی کا دوبارہ اجرا کیا جس کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ وہ اردو کے ایک بہت اچھے نثر نگار تھے۔ ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر اور بزم خوش نفساں کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دلی کی بپتا اور اجڑا دیار کے نام سے مرحوم دلی کے حالات قلم بند کیے۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور انہوں نے انگریزی کی لاتعداد کتابیں اردو میں منتقل کی۔ شاہد احمد دہلوی کو موسیقی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انہوں نے کچھ عرصے ریڈیوپاکستان کی خدمات انجام دی اور ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام کرتے رہے۔حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 27مئی 1967ء کو شاہد احمد دہلوی کا انتقال ہوا۔ (پاکستان کرونیکل: ص 272)